اسلام آباد: وزارت توانائی نے حکومت سے سی پیک کے تحت قائم چینی کمپنیوں کے واجبات کی ادائیگی کیلئے 48 ارب روپے مانگ لیے۔
وزارت توانائی نے ڈیویڈنڈ پلف بیک اسکیم کے ذریعے گردشی قرضہ ختم کرنے کیلئے بھی 100 ارب روپے مانگے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وزارت توانائی نے سبسڈی کی مد میں اگلے مالی سال کیلیے 1.234 ہزار ارب روپے مانگے تھے، تاہم سی پیک منصوبوں کی سبسڈی اس کا محض 4 فیصد بنتی ہے۔
گزشتہ سال وزارت توانائی نے چینی کمپنیوں کے واجبات کی ادائیگی کیلئے 100 ارب روپے مانگے تھے، لیکن وزارت خزانہ نے صرف48 ارب روپے ہی جاری کیے، چینی حکام گردشی قرضوں کی روک تھام کیلیے حکومت پر دبائو ڈالر رہے ہیں، لیکن دوسری طرف آئی ایم ایف نے پاکستانی حکام کو چینی کمپنیوں کے واجبات کی ادائیگی کیلیے اضافی بجٹ مختص کرنے سے روک دیا ہے۔
چینی قرضوں کا انبار 2015 میں کیے گئے انرجی فریم ورک ایگریمنٹ کی بھی خلاف ورزی ہے، جس میں طے کیا گیا تھا کہ پاکستان چینی سرمایہ کاروں کو گردشی قرضوں سے تحفظ فراہم کرنے کیلیے مناسب فنڈ مختص کرتا رہے گا، تاہم حکومت نے صرف سالانہ 48 ارب روپے ہی مختص کیے ہیں، جبکہ چینی کمپنیوں کے قرضے فروری کے اختتام تک 487 ارب روپے تک بڑھ چکے ہیں، یہ رقم گزشتہ سال جون کے مقابلے میں 55 فیصد (172 ارب روپے) زیادہ ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ سی پیک کے گردشی قرضے میں نگران حکومت کے دور میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، جس نے بروقت ادائیگیاں نہیں کیں، جنوری میں نگران حکومت نے چینی کمپنیوں کو 58 ارب روپے ادا کیے تھے، جبکہ چینی کمپنیوں کی جانب سے 110 ارب روپے کی انوائس بھیجی گئی تھی، فروری میں 101 ارب روپے کی انوائس کے برخلاف 95 ارب روپے ادا کیے گئے، گزشتہ 16 ماہ کے دوران چینی پاور پلانٹس نے 1.6 ہزار ارب روپے کے بل بھیجے، تاہم حکومت نے 1.3ہزار ارب روپے کی ادائیگیاں کیں۔
دوسری طرف حکومت نے آئی ایم ایف سے حالیہ مذاکرات کے دوران آئی ایم ایف کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ چینی کمپنیوں کو ادائیگیوں کیلیے اضافی بجٹ جاری نہیں کرے گا، جبکہ چینی قرضوں کو اسی سطح پر برقرار رکھنے کیلیے بجٹ سے اضافی 10 سے 15 ارب روپے ماہانہ جاری کیے جانا ضروری ہے، ادھر بجلی کی قیمتوں میں بار بار اضافوں کے باجود پاور سیکٹر کا گردشی قرضہ 2.7 ہزار ارب روپے کی سطح پر برقرار ہے۔
پاکستان نے آئی ایم ایف سے وعدہ کیا ہے کہ جون 2024 تک اس قرضے کو 2.310 ہزار ارب روپے کی سطح پر لایا جائے گا، اور اس سے زیادہ ہونے کی صورت میں قیمتوں میں اضافے یا سبسڈی کی صورت میں طے کرنا ہوگا، بلوں کی عدم وصولی اور لائن لاسز کی وجہ سے گردشی قرضوں میں سالانہ 589 ارب روپے کا اضافہ ہورہا ہے، جس کو حکومت قیمتوں میں اضافے یا سبسڈی سے پورا کرتی ہے۔
جمعرات, نومبر 21
تازہ ترین
- احتجاج سے نمٹنے کیلئے پولیس نفری ڈی چوک اور مختلف سڑکوں پر کنٹینرز پہنچ گئے
- پی ٹی آئی احتجاج: حکومت کا اسلام آباد میں رینجرز تعینات کرنے کا فیصلہ
- بنوں میں فتنہ الخوارج کے حملے میں شہید ہونے والوں کی نماز جنازہ ادا
- ضمانت کے باوجود عمران خان کی رہائی کا امکان نہیں: عطا تارڑ
- آرمی چیف کا آئیڈیاز 2024کا دورہ، غیر ملکی دفاعی مینوفیکچررز کی شرکت کو سراہا
- ججز اور بیوروکریٹس کو پلاٹ الاٹمنٹ کیس: اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار
- پچھلی حکومت پوچھنے پر بھی توشہ خانہ کی تفصیلات نہیں بتاتی تھی: اسلام آباد ہائیکورٹ
- حکومت نے مذاکرات کے حوالے سے کوئی رابطہ نہیں کیا: بیرسٹر گوہر
- بشریٰ بی بی کی ضمانت میں توسیع، 23 دسمبر تک گرفتار نہ کرنے کا حکم
- حکومت پاکستان کا عمران خان کا مقدمہ فوجی عدالتوں میں چلانے کا کوئی ارادہ نہیں: برطانوی وزیر خارجہ
- امریکی ممبران کانگریس کا جوبائیڈن کو ایک اور خط لکھ دیا
- خارجی نور ولی محسود کا چھپ کرپاکستان میں داخل ہونے کا منصوبہ آشکار