اتوار, دسمبر 15

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے 9 مئی واقعے کی سماعت کے دوران پولیس اور پراسیکیوشن کی ناقص تفشیش پرسرزنش کردی، عدالت نے واقعے میں مبینہ طورپر ملوث 5 ملزمان کی تھانہ نیوٹان میں درج مقدمے میں ضمانت منظور کرلی۔سپریم کورٹ میں 9 مئی واقعہ میں ملوث ملزمان کی ضمانت سے متعلق درخواست پر سماعت جسٹس جمال خان مندوخیل سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی بنچ میں شامل تھے۔
دوران سماعت سپریم کورٹ نے پولیس اور پراسیکیوشن کی ناقص تفشیش پر سرزنش کردی ، جسٹس جسٹس جمال مندوخیل نیاستفسارکیا کہ کیا ریلی نکالنا یا سیاسی جماعت کا کارکن ہونا جرم ہے؟ طلبہ یونین اور سیاسی جماعتوں پر پابندیاں لگانے سے ہی آج یہ بربادی ہوئی ہے۔
کیا ایک ہیڈ کانسٹیبل کے بیان پر سابق وزیراعظم کو غدار مان لیں؟ جسٹس جمال مندوخیل
انہوں نے سوال پوچھا کہ کیا ایک ہیڈ کانسٹیبل کے بیان پر سابق وزیراعظم کو غدار مان لیں؟خدا کا خوف کریں یہ کس طرف جا رہے ہیں۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے سوال پوچھا کہ ملزمان کیخلاف کیا شواہد ہیں؟ کیا سی سی ٹی وی کیمروں سے شناخت ہوئی ؟ جس پر تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ حمزہ کیمپ سمیت دیگر مقامات کے کیمرے مظاہرین نے توڑ دیے تھے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اس کا مطلب ہے ملزمان کیخلاف کوئی ثبوت نہیں صرف پولیس کے بیانات ہیں، مقدمہ میں دہشتگردی کی دفعات کیوں لگائی گئی ہیں؟
پنجاب حکومت کے وکیل نے کہا کہ ملزمان نے آئی ایس آئی کیمپ پر حملہ کیا، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آپ کو پھر علم ہی نہیں کہ دہشتگردی ہوتی کیا ہے؟ ، دہشتگردی سانحہ آرمی پبلک سکول پشاور اور کوئٹہ کچہری میں ہوئی تھی، ریلیاں نکالنا کہاں سے دہشتگردی ہوگئی؟ اصل دہشتگردوں کو پکڑتے نہیں ریلیوں والوں کے پیچھے لگے ہوئے۔
تفتیشی افسر نے کہا کہ ملزمان نے اپنے لیڈر کی گرفتاری پر سازش کے تحت حساس اداروں پر حملے کئے، جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ کیا بم دھماکوں والوں کی سازش کبھی پکڑی گئی ہے؟ اصل دہشتگردوں کی سازش پکڑیں تو کوئی شہید نہ ہو، سی سی ٹی کیمروں کی ریکارڈنگ محفوظ ہوتی ہے لوگ موبائل سے بھی ویڈیو بناتے ہیں۔
وکیل پنجاب حکومت نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ملزمان سے پٹرول بم برآمد ہوئے ہیں، فائرنگ کا بھی الزام ہے، جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ پٹرول بم کون کہاں سے لایا گھر سے تو کوئی لا نہیں سکتا، تفتیش کیا کہتی ہے؟ ۔
پنجاب حکومت کے وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ سپیشل برانچ لاہور کا ایک ہیڈ کانسٹیبل بھی گواہ ہے، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ واقعہ راولپنڈی کا ہے اور گواہ لاہور کا، کیا حکومت کے خلاف ٹائر جلانا بہت بڑا جرم ہے؟ حکومت اور ریاست عوام کے لیے ماں باپ کی اہمیت رکھتے ہیں، بچوں کو ماں باپ دو تھپڑ مار بھی دیں تو بعد میں منا لیتے ہیں قتل نہیں کرتے، سب کو بند کر دینا تو مسئلے کا حل نہیں ہے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ پولیس کے پاس گواہی کے علاوہ کوئی ثبوت ہی موجود نہیں، جس پر تفتیشی افسر نے کہا کہ ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کیا پھر موقع پر جا کر گرفتاری کی۔
تفتیشی افسر اپنی طرف سے کہانیاں بنا رہا ہے: جسٹس جمال
جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ گرفتاری سے پہلے ملزمان کے نام کیسے معلوم تھے؟ سارے کیس کا پولیس خود ستیاناس کر دیتی ہے۔
وکیل سردار عبدالرازق نے کہا کہ ملزمان اپنی دکانیں بند کر کے جا رہے رہے تھے راستے میں پھنس گئے، جس پر جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ایف آئی آر میں تو آئی ایس آئی کے آفس پر حملے کا لکھا ہی نہیں ہے، حساس تنصیبات تو بہت سی ہوتی ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ان پر فائرنگ کابھی الزام ہے کوئی اسلحہ برآمد ہوا نہ پولیس زخمی ہوئی، تفتیشی افسر اپنی طرف سے کہانیاں بنا رہا ہے۔
عدالت نے ملزمان کی ضمانت پچاس پچاس ہزار کے مچلکوں کے عوض منظور کر لی، ملزمان اویس، سیف اللہ، نصراللہ، کامران اور وقاص پر حمزہ کیمپ حملے سمیت توڑپھوڑ کا الزام ہے ۔

Leave A Reply

Exit mobile version