اتوار, دسمبر 15

اسلام آباد: انٹرنیشنل مانیٹرنگ فنڈ(آئی ایم ایف)نے نئے بیل آئوٹ پیکیج کے لیے پاکستان میں فروخت ہونے والی تقریبا تمام اشیا بشمول ادویات پر 18 فیصد سیلز ٹیکس لگانے کی پیشگی شرط نے حکومت کوشدید مشکل میں ڈال دیا ہے۔
ذرائع کے مطابق وزیراعظم شہبازشریف نے ٹیکس سے متعلق شرائط پر بجٹ میں فوری عمل درآمد کی اجازت نہیں دی بلکہ اس کے بجائے وزارت خزانہ کو دوبارہ تیاری کی ہدایت کی ہے۔ ان شرائط کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)کے ٹیکس وصولی کا ہدف 12ہزار900 ارب روپے کے قریب مقرر کرنا ہوگا جو اس مالی سال کے متوقع 9.23 ٹریلین روپے سے 40 فیصد زیادہ ہے۔
12.9ٹریلین روپے کے ہدف کا مطلب ہے ایف بی آر کو ایک سال میں 3ہزار700ارب روپے اضافی صرف ایک سال میں وصول کرنا ہوں گے، جو خراب معیشت کی وجہ سے قریبا نا ممکن ہے۔ قبل ازیں وزارت خزانہ نے وزیراعظم کوبتایا تھا آئندہ مالی سال کے ٹیکس اہداف 12.4ٹریلین روپے ہے ،جسے بڑھا کر12.9کھرب روپے کردیاگیا۔
آئی ایم ایف مشن کے واپس جانے کے چند گھنٹے بعد وزارت خزانہ نے جمعہ کو پہلی جامع بریفنگ دی۔ گزشتہ ہفتے وزیراعظم کو آئی ایم ایف کی جانب سے بجٹ کے مجموعی حجم اور اخراجات سے متعلق شرائط کے متعلق بریفنگ دی گئی تھی۔
ذرائع نے بتایا اگلے بیل آوٹ پیکج کی دیگر پیشگی شرائط میں جولائی سے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ، گیس کی قیمتیں ایڈجسٹ کرنا اور آئی ایم ایف کی ہدایت کے مطابق نئے بجٹ کی منظوری حاصل کرنا شامل ہے۔ذرائع کے مطابق وزیراعظم کوبتایا گیا اگر پاکستان سیلز ٹیکس میں چھوٹ واپس لینے کی شرط پر عمل درآمد کرتا ہے تو پاکستان میں فروخت ہونے والی تمام اشیا پر 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنا ہو گا، سوائے ضروری کھانے پینے کی اشیا اور جو خودمختار سودوں کے تحت محفوظ ہیں۔
وزیراعظم کوبتایا گیا تمام سیلز ٹیکس چھوٹ واپس لئے بغیر آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ممکن نہیں ہے۔ وزیر اعظم نے آئی ایم ایف کی شرائط جاننے کے بعد فوری فیصلہ نہیں کیا بلکہ وزارت خزانہ کو ان اقدامات پر نظرثانی کرنے کو کہا۔ آئی ایم ایف کے ساتھ ایک اور ملاقات اگلے ہفتے متوقع ہے۔
سیلز ٹیکس چھوٹ کی تخمینہ سالانہ لاگت 2.9 کھرب روپے ہے جس میں سے 1.4 کھرب روپے پٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس چھوٹ کی لاگت ہے۔ تمام پٹرولیم مصنوعات پر 5 فیصد سیلز ٹیکس لگانے کی تجویز ہے کیونکہ سیلز ٹیکس کے باقی اثرات پٹرولیم لیوی کے ذریعے وصول کئے جارہے ہیں۔ اگلے بجٹ میں سیلز ٹیکس کی چھوٹ میں کم از کم 1.5 کھرب روپے واپس لینا ہوں گے۔
آئی ایم ایف نے جمعہ کو کہا اہم پیش رفت ہوئی ہے تاہم توسیعی فنڈ پر عملے کی سطح کے معاہدے تک پہنچنے کیلئے اس کا مشن نیا بیل آوٹ پیکج دیئے بغیر واشنگٹن واپس چلا گیا۔ آئی ایف ایف کادوہفتے کا تخمینہ جاتی مشن معاہدے کے بغیرختم ہوگیا کیونکہ اسلام آباد سیاسی عدم استحکام اور معاشی مسائل سے دوچار ہے۔
پاکستانی ذرائع کا کہنا ہے تمام شرائط کے نفاذ سے عوام پر غیر معمولی بوجھ پڑے گا اور کچھ شرائط دوطرفہ تعلقات پر اثرانداز ہوں گی۔ آئی ایم ایف نے معاہدے کو ایگزیکٹو بورڈ کی پیشگی منظوری سے جوڑ دیا ہے۔آئی ایم ایف نے اپنے بیان میں کہا اس کے مشن چیف ناتھن پورٹر کی قیادت میں آئی ایم ایف کا وفد دو ہفتے تک پاکستان میں رہا اور اہم فریقین سے ملاقات کی۔
آئی ایم ایف کی ٹیم نے گزشتہ بدھ کو آئی ایم ایف کی رہائشی نمائندہ ایستھر پیریز کی رہائش گاہ پر امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کے ساتھ ناشتے پرملاقات بھی کی۔اہم حکومتی عہدیدار نے بتایا آئی ایم ایف کے دورے کا مقصد پاکستان کے بجٹ کی تیاریوں کا اندازہ لگانا اور یہ دیکھنا تھا کہ آیا اس کا آئندہ مالی سال اقتصادی فریم ورک مالی اور بیرونی شعبے کی پائیداری کو یقینی بنانے کے مجموعی مقاصد کے مطابق تھا۔
مسلم لیگ (ن) کی قیادت والی مخلوط حکومت بڑھتے ہوئے سیاسی درجہ حرارت کے درمیان معاشی استحکام برقرار رکھنے کیلئے جدوجہد کر رہی ہے۔ اس نے توسیعی فنڈ سہولت پروگرام کو جلد حتمی شکل دینے کی امید ظاہر کی تھی لیکن آئی ایم ایف نے کسی بھی معاہدے کو اگلے بجٹ کی منظوری سے اس کے فریم ورک کے مطابق جوڑا ہے۔
پورٹر نے کہا حکام کے اصلاحاتی پروگرام کا مقصد پاکستان کو معاشی استحکام سے مضبوط، جامع اور لچکدار ترقی کی طرف لے جانا ہے۔ پاکستان جامع ترقی کیلئے عوامی مالیات کو مستحکم کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے تاکہ معیشت بہتر بنا کر کمزوریوں کو کم کیا جا سکے۔
پورٹر نے کہا پاکستان کو مناسب مانیٹری اور شرح مبادلہ کی پالیسیوں کے ذریعے کم اور مستحکم افراط زر کی طرف پیش رفت جاری رکھنا ہوگی۔مشن کے سربراہ نے مزید کہا آئی ایم ایف اور پاکستان درکار مالی امداد کیلئے بات چیت جاری رکھیں گے۔

Leave A Reply

Exit mobile version