قومی احتساب بیورو (نیب) نے پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) انکوائری کی مد میں 168 ارب ریکوری کا دعویٰ کردیا۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ نیب نے 25 سالہ تاریخ میں بی آرٹی پروجیکٹ میں سب سے بڑی ریکوری کی، نیب خیبرپختونخوا نے بی آرٹی پشاور معاملے میں168.5 ارب روپے کی بڑی بالواسطہ ریکوری کی۔
اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ نیب نے عالمی ثالثی عدالت سے کنٹریکٹرز کا 31.5 ارب روپے کا دعویٰ بھی خارج کروایا۔
اعلامیے کے مطابق بی آر ٹی پشاور منصوبے کی تحقیقات کا آغاز 2018 میں ہوا، تحقیقات میں بی آرٹی کے کنٹریکٹ کی غیرقانونی ایوارڈنگ اورسرکاری فنڈزمیں خرد برد کے الزامات سامنے آئے، نیب کی حالیہ قیادت نے تحقیقات کو تیزکیا تو108.5 ارب روپے کی بچت ہوئی اور تحقیقات میں ثابت ہوا کہ کنٹریکٹ میں شامل 6 منصوبے غلط طریقے سے چند مخصوص کمپنیوں کودیے گئے۔
نیب کا کہنا ہے کہ کمپنیوں نے معاہدے کی خلاف ورزی کی اور تقریباً ایک ارب روپے بغیرکام کے حاصل کیے، نیب تحقیقات میں400 سے زائد بینک اکاؤنٹس کا بھی معائنہ کیا گیا جس سے مزید شواہد ملے، کنٹریکٹرز نے پشاور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کو جعلی گارنٹیاں جمع کرائی تھیں، پی ڈی اے کے دعوے کے مطابق 86 ارب روپے کا ہرجانہ بھی طلب کیا گیا، کنٹریکٹرز نے نہ تو کام 6 ماہ کی مقررہ مدت میں مکمل کیا نہ ہی غیرملکی کمپنیوں نے پاکستان آکرمنصوبے پرکام کیا۔
نیب کے مطابق کنٹریکٹرزنے بوگس آڈٹ رپورٹ جمع کرائی، ایس ای سی پی نے اس بوگس آڈٹ رپورٹ کی تصدیق بھی کی، نیب نے غیرملکی کمپنیوں کو ان کے سفارتخانوں کے ذریعے شامل تفتیش کیا، کنٹریکٹرز نے سود کی ادائیگی کی بنیاد پر5 ارب کا دعویٰ بھی کیا، نیب تحقیقات کی وجہ سے پروجیکٹ کو اصلی لاگت پرمکمل کرواکرقومی خرانے کی 9 ارب کی بچت کی گئی۔
اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ نیب کی کارrوائیوں کی بدولت یہ پروجیکٹ اصل لاگت پرمکمل کرکے مزید 9 ارب روپے کی بچت کی گئی، نیب کی تحقیقات کی وجہ سے کنٹریکٹرزنے پی ڈی اے کیساتھ عدالت سے باہرتصفیے کی درخواست کی، تصفیے کے نتیجے میں صرف2.6 ارب روپے کی ادائیگی پرمعاہدہ طے پایا، اس معاہدے کے بعد پشاور ہائیکورٹ نے تمام کیسز بند کردیے.
اعلامیے میں مزید کہا کہ نیب نے 2018 میں بی آرٹی پشاورکے غیرقانونی کنٹریکٹ دینے،سرکاری خزانے میں خرد برد پرتحقیقات کا آغازکیا تھا۔