جمعہ, دسمبر 27

اسلام آباد: چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار پہلے سے زیادہ نہیں بڑھا، ایسا نہیں ہے کہ اب برا ہو رہا ہے، ماضی میں بھی برا ہوتا رہا ہے، اگر خان صاحب بے قصور ہیں تو ان کا احتساب کرنا چاہیے۔ جیل میں نہیں مجرم ہو تو جیل میں ہونا چاہیے۔ سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے کیس کی سماعت انتخابات کے بعد نہیں، الیکشن سے پہلے ہونے کے حق میں ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ فیصلہ الیکشن سے پہلے آجائے۔ امید کی جا رہی تھی کہ کیس کی مسلسل سماعت کی جائے لیکن اب ہمیں امید ہے کہ اس کیس کا فیصلہ انتخابات کے فوراً بعد آجائے گا۔ ہمیں امید ہے کہ ہمیں اس کیس میں انصاف ملے گا اور تاریخ درست ہوگی۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ انتخابات ہر صورت میں 8 فروری کو ہوں گے، چاہے اقوام متحدہ قرارداد پاس کر لے، اگر تین چار سینیٹرز کھڑے ہو کر کچھ کہتے ہیں تو ان کی باتوں میں زیادہ وزن ہے یا آئینی اور قانونی فیصلہ۔ کیا چیف جسٹس زیادہ وزنی ہیں؟ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پی پی نے کراچی میں بہت ترقی کی ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ کراچی اور بلدیاتی انتخابات دونوں ایک ساتھ جیتے ہیں۔ ہم نے ملتان میں کئی جگہوں پر مسلم لیگ ن کو ہرایا۔ پاکستان کے عوام اس بار پی پی کو ضرور موقع دیں گے۔ یہ پہلی بار ہوگا کہ کراچی کا بلدیاتی نظام، سندھ کا صوبائی نظام اور پاکستان کا وفاقی نظام پیپلز پارٹی کے پاس ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کو الیکشن کمیشن میں اثرورسوخ کے ذریعے نکالا گیا کیونکہ پاکستانی عوام کرکٹ سے محبت کرتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جب ہمارے خلاف جھوٹے مقدمات بنتے تھے تو خان ​​صاحب کہتے تھے کہ ادارے خودمختار ہیں، انہیں صفائی فراہم کرنی چاہیے، اس لیے آج خان صاحب کو بھی اداروں سے رجوع کرنا چاہیے، جس کا خمیازہ خان صاحب کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ . جیلوں میں ڈالنے اور مقدمات بنانے کی روایت درست نہیں لیکن یہ روایت خان صاحب نے خود قائم کی۔ سب سے پہلے اسے توبہ کرنی چاہیے اور آئندہ ایسی روایات کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ بلاول نے کہا کہ ہمارے نظام میں اتنی شفافیت نہیں کہ پھانسی کی حمایت کر سکے، خان صاحب کا موقف تھا کہ تمام چوروں کو چوک پر لٹکا دیا جائے، دو سو لوگ مارواڑی جائیں گے تو سسٹم ٹھیک ہو جائے گا، اب خان صاحب سے پوچھنے کی بجائے میری رائے کے لیے پوچھا آج ان کا کیا مقام ہے؟ سیاست دانوں اور سیاسی کارکنوں کو ایسی سزا ملنی چاہیے؟ انہیں اپنا موقف بدلنا چاہیے۔

Leave A Reply

Exit mobile version