اتوار, دسمبر 15

راولپنڈی: اڈیالہ جیل میں سائفرکیس کی سماعت کے دوران عمران خان اور جج کے درمیان تلخ کلامی ہوئی جب کہ شاہ محمود نے سرکاری فائل ہوا میں پھینک دی۔
راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات نے سائفر کیس کی سماعت کی، اس دوران عمران خان کے وکلا کی عدم حاضری کے باعث کیس کے گواہوں کے بیانات پر جرح شروع نہ ہو سکی۔
عدالت کے حکم پر حکومت کی جانب سے عمران خان اور شاہ محمود کو دیے گئے وکلا عدالت میں پیش ہوئے، جس پر دونوں نے حکومت کی جانب سے دی گئی وکلا کی صفائی پر عدم اعتماد کا اظہار کیا۔
کیس کی سماعت کے دوران عمران خان اور خصوصی عدالت کے جج کے درمیان شدید تلخ کلامی ہوئی اور شاہ محمود نے حکومت کی جانب سے دیے گئے وکیل کی کیس فائل کو ہوا میں اڑا دیا۔
عمران خان نے جج سے مکالمہ کیا کہ جن وکلا پر ہمیں اعتماد نہیں وہ ہماری نمائندگی کریں گے۔ جج صاحب یہ کیا مذاق ہے؟ میں تین ماہ سے کہہ رہا ہوں کہ سماعت سے پہلے مجھے وکلا سے ملاقات کی اجازت دی جائے۔ بار بار کی درخواست کے باوجود مجھے وکلا سے مشورہ نہیں کرنے دیا جا رہا ہے۔ اگر مشاورت کی اجازت نہیں دی گئی تو کیس کیسے آگے بڑھے گا؟
بانی پی ٹی آئی کے موقف پر فاضل جج نے کہا کہ میں نے آپ کو جتنا ریلیف دیا جاسکتاتھا میں نے دیا، وزرش کے لئے سائیکل کی فراہمی یا پھر وکلاء سے ملاقات، آپ کی درخواست منظور کی، میرے ریکارڈ پر 75 درخواستیں ہیں جو ملاقاتوں سے متعلق ہیں۔ اس پر عمران خان نے کہا کہ آپ نے ملاقات کا حکم دیا لیکن ملاقات نہیں ہوئی، کسی کو اوپن ٹرائل میں جیل آنے سے کیسے روکا جا سکتا ہے۔
اس موقع پر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ادھر بھی سرکار ادھر بھی سرکار یہ مذاق ہو رہا ہے۔ جس پر فاضل جج نے کہا کہ شاہ محمود قریشی صاحب اگر آپ خود جرح کرنا چاہتے ہیں تو خود کر سکتے ہیں۔ لیکن آپ کے وکلا نے آنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔
شاہ محمود نے کہا کہ یہ سرکاری ڈرامہ نہیں چلے گا، اس طرح ٹرائل کی کیا ساکھ رہے گی، جج نے جواب دیا کہ میرے لیے آسان تھا کہ میں دفاع کا حق ختم کر دیتا، میں نے پھر بھی اسٹیٹ ڈیفنس کا حق دیا ۔ اسی حراست کی وجہ سے مجھے یہاں جیل آنا پڑا، یہ بھی ایک ماں کے بچے ہیں جن کے کیسز میں نے جوڈیشل کمپلیکس میں چھوڑے، میں حکم دے کر تھک گیا ہوں لیکن آپ کا وکیل نہیں آتا، سپریم کورٹ نے حکم نامے میں کہا کہ اگر ٹرائل میں رکاوٹیں ہیں تو عدالت ضمانت منسوخ کر سکتی ہے۔
شاہ محمود نے جج ابوالحسنات کی بات پر کہا کہ سپریم کورٹ کے ضمانتی فیصلے کا بھی مذاق اڑایا گیا، جیل سے باہر آتے ہی ایک اور کیس میں اٹھا لیا گیا۔
جج نے استفسار کیا کہ شاہ صاحب اس کیس کو لٹکانے کا کیا فائدہ؟ شاہ محمود نے کہا کہ جیل میں کوئی خوشی سے نہیں رہتا، میں اپنا وکیل پیش کرنا چاہتا ہوں، سرکاری وکلا پر اعتماد نہیں، اس پر جج نے کہا کہ آپ اپنے وکیل کو بلا لیں۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پراسیکیوشن کے نامزد کردہ وکیلوں سے ڈیفنس کروایا جا رہا ہے’اس سے تو ثابت ہوتا ہے کہ فیصلہ ہمارے خلاف ہوچکا۔

Leave A Reply

Exit mobile version