اتوار, ستمبر 8

اسلام آباد: نگران وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مرتضی سولنگی نے کہا ہے کہ سپریم عدلیہ کی توہین اور بہتان تراشی کی مہم پر 600 کے قریب سوشل میڈیا اکانٹس کی چھان بین کی گئی ہے اور 32 صحافیوں سمیت 110 افراد کو نوٹس جاری کیے گئے ہیں۔
نگران وفاقی وزیر اطلاعات، نشریات و پارلیمانی امور مرتضی سولنگی نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ سپریم جوڈیشری کے خلاف مہم جاری ہے جس پر وفاقی وزارت داخلہ نے 16 جنوری کو اس معاملے پر مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی تھی۔
مرتضی سولنگی نے کہا کہ جے آئی ٹی کا پہلا اجلاس 17 جنوری اور دوسرا اجلاس 23 جنوری کو ہوا اور اب تک 600 کے قریب سوشل میڈیا اکانٹس کی چھان بین کی بنیاد پر 100 کے قریب انکوائریاں درج کی جاچکی ہیں۔
نگراں وزیر اطلاعات نے کہا کہ تقریبا 110 افراد کو نوٹس جاری کیے گئے ہیں جن میں 22 کے قریب سیاسی کارکن یا سیاستدان اور 32 صحافی شامل ہیں اور اب تک صرف قانون کے تحت نوٹس جاری کیے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کسی کو ہراساں نہیں کیا گیا اور نہ ہی کسی کے خلاف فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کی گئی تاہم عدالت اور قانون اپنا راستہ اختیار کرے گا اور اب تک جو کارروائی ہوئی ہے وہ قانون کے مطابق ہے۔
مرتضی سولنگی نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت اظہار رائے کی آزادی لامحدود نہیں ہے لیکن اس پر مناسب پابندیاں ہیں۔ سپریم لا آف دی لینڈ میں درج ہے کہ مسلح افواج اور عدلیہ کے خلاف آئین اور قانون کے دائرہ کار سے باہر کوئی مہم نہیں چلا سکتی
انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ تنقید کا نہیں، تضحیک اور کردار کشی کا ہے۔ گزشتہ دنوں سپریم جوڈیشری کے خلاف جو مہم چلائی گئی وہ تنقید کے زمرے میں نہیں آتی۔ تنقید کو تہذیب کے دائرہ میں رکھیں اور بہتان تراشی سے گریز کریں۔
نگراں وفاقی وزیر نے کہا کہ قانون سازی پارلیمنٹ کا اختیار ہے اور نوٹس جاری کرنا متعلقہ اداروں کا اختیار ہے، جے آئی ٹی کی تشکیل کے بعد کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا۔ مہم میں واضح کمی آئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ عوامی رائے اور ایک قانون کی عدالت کا معاملہ ہے، قانونی سوالات کو عدالت میں رکھا جائے گا، حکومت، حکومتی اداروں اور اعلی عدلیہ پر یکطرفہ حملہ نہیں کیا جا سکتا، حقائق بتانا ہوں گے، قانونی سوالات کے جوابات عدالت میں پیش کیے جائیں گے۔
مرتضی سولنگی نے کہا کہ موجودہ جے آئی ٹی کا دائرہ اختیار واضح ہے، یہ جے آئی ٹی موجودہ دور میں بنی تھی۔اس موقع پر ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) اسحاق جہانگیر کا کہنا تھا کہ ضروری نہیں کہ ہر نوٹس پر ایف آئی آر درج ہو، جے آئی ٹی کی تشکیل کے بعد غیر یقینی کی فضا کم ہوئی ہے۔ڈی جی ایف آئی اے نے کہا کہ جے آئی ٹی کی تشکیل کے بعد بہت سے لوگوں نے اپنی ٹویٹس اور پوسٹس ڈیلیٹ کیں۔

Leave A Reply

Exit mobile version