اسلام آباد: الیکشن کمیشن میں مخصوص نشستوں سے متعلق جاری کیس میں انکشاف ہوا ہے کہ سنی اتحاد کونسل کے سربراہ صاحبزادہ حامد رضا نے الیکشن کمیشن کو خط لکھ کر مخصوص نشستیں لینے سے انکار کردیا۔الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق درخواستوں کی سماعت کی۔ بیرسٹر گوہر علی خان اور صاحبزادہ حامد رضا کمیشن کے سامنے پیش ہوئے۔پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے اعتراض کیا کہ الیکشن کمیشن نے گزشتہ روز فیصلہ کیا کہ تمام پارلیمانی جماعتوں کو نوٹس جاری کیا جائے ۔چیف الیکشن کمشنر نے جواب دیا کہ ہم نے تمام جماعتوں کو نہیں بلایا، صرف مخصوص نشستوں کے حقدار ہیں انہیں نوٹس جاری کئے تھے۔
علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں پارٹی نہیں ہیں’ سنی اتحاد کونسل کی چار درخواستیں کمیشن کے سامنے ہیں، الیکشن کمیشن نے ہماری درخواستیں زیر التوا رکھی تاکہ دیگر جماعتوں کی درخواستیں بھی آجائیں، اس کے بعد ہماری درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کی گئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف سے انتخابی نشان واپس لے لیا گیا، ہم نے سپریم کورٹ میں اپنی تشویش کا اظہار کیا تھا کہ انتخابی نشان نہ ہونے کی صورت میں ہمیں مخصوص نشستیں نہیں ملیں گی، تاہم وہاں الیکشن کمیشن حکام نے کہا کہ اگر وہ کوئی پارٹی جوائن کریں گے انہیں سیٹیں مل جائیں گے، سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن کے وکیل کا کہنا تھا کہ انتخابی نشان لینے سے مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ متاثر نہیں ہوگی، تاہم اب ہمارے خدشات اور پیش گوئیاں درست ثابت ہوئی ہیں۔
چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ آپ کے وکیل نے سپریم کورٹ پر یقین کیا تھا کہ اگر ہم سے نشانات لیے گئے تو ہمیں مخصوص نشستیں نہیں ملیں گی۔
بیرسٹر علی ظفر نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اعتراض یہ ہے کہ سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کی فہرست نہیں دی، جب کوئی غیر معمولی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو اس کی تشریح کرنی پڑتی ہے، سیاسی جماعت وہی ہوتی ہے جو الیکشن میں حصہ لے۔
ممبر اکرام اللہ نے استفسار کیا کہ جس پارٹی کا آپ ذکر کر رہے ہیں کیا اس نے الیکشن میں حصہ لیا؟
بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ اگر وہ پارٹی نہیں تو الیکشن کمیشن کی فہرست میں ان کا نام اور انتخابی نشان کیوں ہے؟
رکن خیبرپختونخوا نے ان سے کہا کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم اس پارٹی کی رجسٹریشن منسوخ کر دیں؟۔
بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ بے شک انہیں ختم کر دیا جائے لیکن اس کیلئے طریقہ کار پر عمل کرنا ہو گا۔ سنی اتحاد کونسل ایک سیاسی جماعت ہے جسے الیکشن کمیشن نے انتخابی نشان الاٹ کیا ہے۔
علی ظفر نے کہا کہ اگر ایس آئی سی کو مخصوص نشستیں نہ بھی دی جائیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ تمام مخصوص نشستیں دوسری جماعتوں میں تقسیم کردی جائیں۔ اگر کوئی سیاسی جماعت اسمبلی میں 20 جنرل نشستیں حاصل کر پائی اسے 30 جنرل نشستوں کے حساب سے مخصوص نشستوں کی وجہ سے نہیں دی جاسکتی، آئین کہتا ہے کہ مخصوص نشستوں کا فیصلہ آزاد امیدواروں کی شمولیت کے بعد کیا جائے گا۔
چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ اس آرٹیکل کی تشریح کی جا سکتی ہے کہ مخصوص نشستیں صرف اس جماعت کو دی جائیں گی جو الیکشن کے ذریعے اسمبلیوں میں داخل ہوئیں’ سنی اتحاد کونسل نے ترجیحی نشستوں کی فہرست بھی جمع نہیں کرائی ‘ قانون میں یہ تو نہیںکہ اگر کوئی فہرست وقت پر جمع نہ کرائے تو وہ بعد میں فہرست جمع کرا سکتا ہے۔
ہفتہ, دسمبر 14
تازہ ترین
- وزیراعظم کا او آئی سی سی آئی کی سرمایہ کاری بارے رپورٹ پر اظہار اطمینان
- ریکارڈ پر ریکارڈ قائم! سٹاک مارکیٹ میں ہنڈرڈ انڈیکس بلند ترین سطح پر پہنچ گیا
- مریم نواز کا شنگھائی ایکسپیریمنٹل سکول کا دورہ، مختلف شعبوں کا مشاہدہ
- چیلنجز سے نمٹنے کے لیے طویل المدتی اقتصادی پالیسیوں کی ضرورت ہے:ناصر قریشی
- 71ہزار سے زائد شناختی کارڈز بلاک کئے جانے کا انکشاف
- عادل بازئی کو ڈی سیٹ کرنے کا فیصلہ کالعدم، قومی اسمبلی کی رکنیت بحال
- آئینی بنچ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس کیخلاف درخواستیں خارج کر دیں
- جلاؤ گھیراؤ کیس: شاہ محمود قریشی، یاسمین راشد سمیت دیگر پر فرد جرم عائد
- جو شخص آرمڈ فورسز میں نہیں وہ اسکے ڈسپلن کے نیچے کیسے آ سکتا ہے؟ آئینی بنچ
- توشہ خانہ ٹو کیس میں عمران خان اور بشریٰ بی بی پر فرد جرم عائد
- علاقائی استحکام کیلئے شام میں امن ناگزیر ہے: پاکستان
- پنجاب : ارکان اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافےکی منظوری