صوبائی محکمہ صحت نے کہا ہے کہ خیبرپختونخوا میں ایم پاکس کے مزید 2 کیسز سامنے آگئے ہیں، جس کے بعد ملک بھر میں اب تک متاثرہ افراد کی تعداد 3 ہوگئی ہے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق ایک دن پہلے پاکستان میں اس سال ایم پاکس کا پہلا مشتبہ کیس رپورٹ ہوا تھا جس کے بعد نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی)نے اس بیماری سے نمٹنے کے لیے اقدامات کے بارے میں ایک ایڈوائزری جاری کردی تھی۔
ڈیموکریٹک ریپبلک کانگو میں کیسز کے قریبی ممالک میں پھیلنے کے بعد ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے بدھ کو افریقہ میں پھیلے ایم پاکس کو بین الاقوامی تشویش کی پبلک ہیلتھ ایمرجنسی قرار دے دیا تھا، جو کہ آرگنائزیشن کا اعلی ترین سطح کا الرٹ ہے۔
پاکستان میں اس سے قبل ایم پاکس، جسے مونکی پوکس بھی کہا جاتا ہے، کے کیسز سامنے آ چکے ہیں، تاہم یہ فوری طور پر واضح نہیں ہوسکا کہ مریضوں میں کس ویریئنٹ کی تشخیص ہوئی ہے۔
خیبر پختونخوا کے ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز سلیم خان نے کہا کہ مریضوں میں سے دو میں ایم پوکس کی تصدیق ہوئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ تیسرے مریض کے نمونے دارالحکومت اسلام آباد کے نیشنل ہیلتھ انسٹی ٹیوٹ کو تصدیق کے لیے بھیجے گئے ہیں، مزید بتایا کہ تینوں مریضوں کو قرنطینہ میں رکھا جا رہا ہے۔
صوبائی محکمہ صحت نے بتایا کہ متحدہ عرب امارات سے آنے والے مریضوں میں وائرل انفیکشن کی تشخیص ہوئی ہے۔پاکستان کی قومی صحت کی وزارت کے ترجمان نے کہا کہ پاکستان میں ایم پاکس کے ایک مشتبہ کیس کا پتا چلا ہے۔
عالمی صحت کے عہدیداروں نے جمعرات کو سویڈن میں ایم پاکس وائرس کے ایک نئے انفیکشن کی تصدیق کی اور اسے افریقہ میں پھیلے ہوئے وائرس سے منسلک کردیا، عالمی ادارہ صحت کی جانب سے اس بیماری کو عالمی سطح پر عوامی قرار دینے کے ایک دن بعد براعظم سے باہر اس کے پھیلا کا یہ پہلا کیس ہے۔
جنوری 2023 میں موجودہ وبا شروع ہونے کے بعد کانگو میں 27,000 کیسز اور 1,100 سے زیادہ اموات ہو چکی ہیں، خاص طور پر بچوں میں۔
ڈبلیو ایچ او کی ویب سائٹ کا کہنا ہے کہ مونکی پاکس وائرس کی وجہ سے ہونے والی یہ بیماری دردناک خارش، بڑھے ہوئے لمف نوڈس اور بخار کا سبب بن سکتی ہے اور کچھ لوگوں کو بہت شدید بیمار کر سکتی ہے۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ایم پاکس کی دو اہم اقسام ہیں: کلیڈ ون اور کلیڈ ٹو۔اس سے پہلے 2022 میں اعلان کردہ ایم پاکس پبلک ہیلتھ ایمرجنسی کلیڈ ٹو کی وجہ سے تھی۔
یہ وائرس تقریبا 100 ممالک میں پھیلا جہاں عام طور پریہ وائرس نہیں ہوتے جن میں یورپ اور ایشیا کے کچھ ممالک بھی شامل ہیں لیکن ویکسین دے کر اس پر قابو پا لیا گیا تھا تاہم اس بار یہ کہیں زیادہ مہلک کلیڈ ون ہے۔
پچھلے سال ستمبر کے آس پاس وائرس میں تبدیلی آئی تھی، تغیرات کے نتیجے میں کلیڈ ون بی نامی ایک قسم سامنے آئی جو اس کے بعد تیزی سے پھیل رہا ہے۔
اس نئی قسم کو سائنسدانوں نے اب تک کی سب سے خطرناک قسم قرار دیا ہے۔افریقہ سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن(سی ڈی سی) کا کہنا ہے کہ سنہ 2024 کے آغاز سے جولائی کے آخر تک 14,500 سے زائد ایم پاکس انفیکشن اور 450 سے زائد اموات ہوئیں۔
یہ 2023 کے اسی عرصے کے مقابلے میں انفیکشن میں 160 فیصد اضافہ اور اموات میں 19 فیصد اضافہ ہے۔اگرچہ ایم پوکس کے 96 فیصد کیسز ڈی آر کانگو میں ہیں لیکن یہ بیماری بہت سے ہمسایہ ممالک جیسے برونڈی، کینیا، روانڈا اور یوگینڈا میں پھیل چکی ہے جہاں یہ عام نہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ نئی قسم زیادہ آسانی سے پھیل سکتی ہے جس سے بچوں اور بالغوں میں زیادہ سنگین بیماریاں اور اموات ہو سکتی ہیں۔
ایم پاکس کی علامات کیا ہیں؟ابتدائی علامات میں بخار، سر درد، سوجن، کمر درد اور پٹھوں میں درد شامل ہیں۔
بخار ٹوٹنے کے بعد دانے پڑ سکتے ہیں جو اکثر چہرے سے شروع ہو کر جسم کے دیگر حصوں میں پھیل جاتے ہیں جن میں عام طور پر ہاتھوں کی ہتھیلیاں اور پیروں کے تلوے شامل ہوتے ہیں۔
دانے، جو انتہائی کھجلی والے یا تکلیف دہ ہو سکتے ہیں۔
اتوار, دسمبر 8
تازہ ترین
- علاقائی استحکام کیلئے شام میں امن ناگزیر ہے: پاکستان
- پنجاب : ارکان اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافےکی منظوری
- تیسری بغاوت ناکام ہونے پر پشتون کارڈ کھیلنا قابل مذمت ہے: عظمیٰ بخاری
- گزشتہ 9ماہ میں تمام معاشی اشاریے درست سمت گامزن ہیں : مریم اورنگزیب
- بشریٰ بی بی کے توشہ خانہ ٹو کیس میں وارنٹ گرفتاری جاری
- جوڈیشل کمیشن کا 6دسمبر کا اجلاس مؤخر کیا جائے، جسٹس منصورعلی کا چیف جسٹس کو خط
- مریم نواز شریف نے جیلانی پارک میں گل داؤدی نمائش کا افتتاح کر دیا
- جعلی خبریں پھیلانیوالوں کو کٹہرے میں لانا وقت کی ضرورت: فارمیشن کمانڈرز کانفرنس
- جی ایچ کیو حملہ کیس، عمران خان پر فرد جرم عائد !
- معاشی ٹیم کی کوششوں کے ثمرات آنا شروع ہو گئے ہیں: وزیر اعظم
- آئینی بنچ نے پی آئی اے کی نجکاری روکنے کا حکم واپس لے لیا
- بندوق، غلیل، پتھر اور کیلوں والے ڈنڈے پاکستان کی پہچان نہیں: مریم نواز