اسلام آباد کے علاقے سنگجانی میں پی ٹی آئی جلسہ ناکامی سے دوچار ہو گیا کیونکہ پاکستان کے باشعور عوام اب پی ٹی آئی اور اس کے بانی کے شرانگیزی کے بیانیے سے خود کو پیچھے ہٹا چکے ہیں، پاکستان کے غیور عوام اب صرف اور صرف اپنے ملک کی ترقی اور وقار کو بڑھتا دیکھنا چاہتے ہیں وہ کسی طرح بھی 9 مئی جیسے واقعات کے ذمہ داران کے ساتھ کھڑا ہونے کیلئے تیار نہیں ہیں۔
علی امین گنڈا پور نے اسلام آباد کے جلسے میں جس طرح کی زبان استعمال کی وہ عین پی ٹی آئی کے بیانیے کے مطابق ہے، یہی گھٹیا گفتگو پی ٹی آئی کے کلٹ کارکن سن کر خوش ہوتے ہیں اور یہی وہ گھٹیا گفتگو کی خاصیت ہے جس کی وجہ سے انتشاری ذہن کے مالک بانی پی ٹی آئی نے علی امین گنڈاپور کو وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا جیسا اہم عہدہ دیا ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق سیاست میں نعرے بازی اور دعوے بہت کئے جاتے ہیں مگر زمینی حقائق سے یکسر مختلف ہوتے ہیں، علی امین گنڈا پور کا یہ کہنا کہ 2 ہفتوں میں اگر بانی پی ٹی آئی کا نہ چھوڑا گیا تو وہ خود اسے رہا کرا لینگے بھڑک ضرورہے مگر اس پر عمل کرنا نا ممکن ہے، اگر آسان ہوتا تو آج سے چھ مہینے پہلے ہی علی امین گنڈا پور یہ کام کرلیتے۔
زمینی حقائق یہ بھی ہیں کہ خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور تو ہزار کوشش کے باوجود اپنے صوبے کا چیف سیکرٹری تک تو بدل نہیں سکتے اور ان کی جانب سے اسٹیبلشمنٹ کو دھمکیاں کیا معنی رکھتی ہیں۔۔۔؟، یہ بات باشعور پاکستانی عوام تو سمجھ سکتے ہیں مگر پی ٹی آئی کا انتشاری کارکن نہیں سمجھ سکتا۔سیاسی مبصرین نے علی امین گنڈا پور کی تقریر کے بعد یہ بھی کہہ دیا ہے کہ علی امین گنڈا پور نے اپنی جماعت کیلئے اپنے ہاتھ سے گڑھا کھود ڈالا ہے۔ پی ٹی آئی کو سب سے زیادہ نقصان بانی پی ٹی آئی کے بیانات نے پہنچایا اور رہی سہی کسر علی امین امین جیسے رہنما پوری کر رہے ہیں۔
یہاں یہ سوال بھی اہم ہے کہ جلسے کیلئے جو قواعد و ضوابط مرتب کئے گئے تھے اور جن پر علی امین گنڈا پور سمیت تمام پی ٹی آئی رہنماؤں نے دستخط بھی کئے ان میں یہ بات بھی درج تھی کہ ریاستی اداروں کیخلاف نہ ہی کوئی بات کی جائے اور نہ ہی کوئی ان کیخلاف نعرے لگایا جائے گا، مگر علی امین گنڈا پور نے تمام حدیں پار کیں اور اب کیا قانون ان کیخلاف حرکت میں آئیگا؟
علی امین گنڈا پور نے جلسے میں جس طرح کی زبان عورت کے حوالے سے استعمال کی کیا وہ کسی پختون روایت سے تعلق رکھنے والے شخص کو زیب دیتی ہے؟، کیا ایسی زبان کسی اور سیاسی جماعت کی جانب سے استعمال کی جاتی تو یہ انسانی حقوق کی باتیں کرنے والے لوگ ہیں وہ خاموش بیٹھتے؟ مگر علی امین گنڈا پور کی بات پر ان کی جانب سے خاموشی بتاتی ہے کہ ان کا بھی دوہرا معیار ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق علی امین گنڈا پور کو شاید یہ معلوم نہیں کہ پاکستان کی آبادی 25 کروڑ تک پہنچ چکی ہے اور جلسے میں چند ہزار لوگ تھے یہ کسی طرح بھی اکثریت ظاہر نہیں کرتے ان میں بھی اکثریت خیبرپختونخوا سے لائے گئے شرپسندوں کی تھی پنجاب اور دیگر صوبوں کے عوام نے پی ٹی آئی کے شرانگیز بیانیے کو مسترد کردیا ہے۔
جلسے میں پاک فوج جیسے ادارے پر بھی الزامات عائد کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ علی امین گنڈا پور اور ان کی جماعت ایک بار پھر ٹکراؤ کی صورتحال پیدا کرکے دشمن قوتوں کو خوش کرنا چاہتی ہے، پاک فوج کیخلاف ہرزہ سرائی کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ ملک دشمن قوتوں کی مزید حمایت حاصل کی جائے۔
سیاسی مبصرین نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ علی امین گنڈا پور بار بار این آر او، این آر او کی بات کرتے نظر آئے مگر کیا انہیں معلوم ہے کہ ان کا اپنا لیڈر اس وقت این آر او مانگ رہا ہے؟
ویسے تو جلسے میں محمود خان اچکزئی نے ان کی طبعیت کافی حد تک صاف کردی اور یہ تک کہہ دیا کہ یہ کیسی ہلڑ بازی اور غیر منظم جماعت ہے کہ سٹیج تک آتے آتے لوگوں کی جیب ہی کاٹ لیتی ہے، ایک طرح سے محمود خان اچکزئی نے پی ٹی آئی والوں کو جیب کترا قرار دیدیا ہے، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایسے غیر منظم لوگ کسی طرح بھی انقلاب نہیں لاسکتے، محمود خان اچکزئی ان کے سٹیج پر کھڑا ہو کر ان کے بیانیے کو غلط کہہ کر چلا گیا ہے تو باقی پی ٹی آئی کے پاس کیا بچا؟
خیبرپختونخوا میں اس وقت کوئی حکومت نظر نہیں آتی، سیلاب کی وجہ سے صوبہ خیبرپختونخوا کے عوام بے یارومددگار پڑیں ہیں،اس کے ساتھ ساتھ بی آر ٹی پروجیکٹ میں کرپشن کے شواہد بھی سامنے آئے ہیں ان باتوں پر پردہ ڈالنے اور حالات کا رخ موڑنے کیلئے بھی وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا نے ریاستی اداروں کے حوالے سے بے بنیاد الزامات عائد کئے ہیں۔
جلسے کی ناکامی علی امین گنڈا پور کے کی ہرزہ سرائی سے ثابت ہے، اب حکومت کو اپنی رٹ برقرار رکھنے، قومی یکجہتی کو بچانے اور عوام کے جان و مال کے تحفظ کیلئے ایسے شرپسند عناصر کیخلاف کارروائی کرنا ہو گی ورنہ کل کو کوئی بھی شخص اٹھ کر ریاستی اداروں پر حملے شروع کردے گا۔