اتوار, ستمبر 8

راولپنڈی: سابق سیکریٹری خارجہ کے عدالت میں ریکارڈ کیے گئے بیان کی کاپی سامنے آگئی ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ امریکا کے ایڈیشنل سیکریٹری نے ایک نوٹ بھیجا جس میں انھوں نے امریکی حکام کو عمران خان کے سائفر پر تشویش سے آگاہ کیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں وکلا کی مصروفیت کے باعث خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے کیس کی سماعت جمعہ تک ملتوی کردی۔
دوسری جانب 22 جنوری کو سائفر کیس میں عدالت میں اپنا بیان ریکارڈ کرانے والے سابق سیکریٹری خارجہ سہیل محمود کے ریکارڈ شدہ بیان کی تحریری کاپی سامنے آگئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ میری بطور سیکریٹری خارجہ تقرری مارچ 2022 میں ہوئی، 8 مارچ 2022 کو واشنگٹن میںمیرا پاکستانی سفیر سے ٹیلی فونک رابطہ ہوا۔
سفیر نے امریکی وزیر خارجہ برائے جنوبی اور وسطی ایشیا سے ملاقات کے بارے میں بتایا اور ڈپٹی ہیڈ آف مشن اور دفاعی اتاشی بھی سفیر کے ساتھ موجود تھے۔
سہیل محمود کے مطابق سفیر نے معاملے کی حساسیت کے بارے میں بتایا اور کہا کہ انہوں نے اس گفتگو کے حوالے سے وزارت خارجہ کو ایک سائفر ٹیلی گرام بھیجا ہے۔ میں اپنے دفتر گیا اور سائفر ٹیلیگرام کی ایک کاپی حاصل کی۔ گرام کو غیر سرکولیشن کے طور پر صرف سیکرٹری خارجہ کے لیے درجہ بندی کیا گیا ہے، میں نے ہدایات کے ساتھ سائفر ٹیلی گرام کی ایک کاپی تقسیم کرنے کی منظوری دی ہے اور ہدایت کی ہے کہ سائفر کی ایک کاپی سیل بند لفافے میں ایس پی ایم کو بھیجی جائے۔
سابق سیکرٹری خارجہ نے کہا کہ 27 مارچ 2022 کو سابق وزیراعظم عمران خان نے جلسے میں خط لہرایا جب کہ 28 مارچ کو ایڈیشنل سیکرٹری امریکا کو موصول ہونے والے اندرونی نوٹ میں کہا گیا کہ امریکی حکام نے وزیراعظم عمران خان کے عوامی بیان پرتشویش کا اظہار کیا، میں نے یہ نوٹ اس وقت کے وزیر خارجہ کو بھیجا جس میں مشورہ دیا گیا تھا کہ امریکہ کے ساتھ جڑے رہنا سمجھداری کی بات ہوگی، اس مشورے کا مقصد اہم ملک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات اور خفیہ رابطوں کی عوامی سطح کو محفوظ بنانا تھا۔ لیکن بحث سے گریز کرنا تھا۔
سہیل محمود نے کہا کہ 29 مارچ 2022 کو بنی گالہ میں بلائی گئی میٹنگ پہلے سے طے شدہ نہیں تھی اور مختصر نوٹس پر بلایا گیا تھا۔ اس میٹنگ میں سابق وزیراعظم کے علاوہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور اعظم خان بھی موجود تھے۔ تھے، مجھے سائفر ٹیلیگرام پڑھنے کو کہا گیا، سائفر پڑھنے کے دوران شرکا نے امریکی معاون وزیر خارجہ اور واشنگٹن میں پاکستانی سفیر کے درمیان ہونے والی گفتگو پر تبادلہ خیال کیا، میں نے یہ بھی بتایا کہ سائفر کی ڈی کلاسیفکیشن سفارتی کام کو متاثر کرے گی کیونکہ اس سے امریکہ اور کچھ دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں۔
سہیل محمود کے مطابق بنی گالہ میں ہونے والی والی میٹنگ مختصر تھی جو بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوگئی۔ میں سائفر کی کاپی اپنے ساتھ لے گیا’ سائفر محفوظ رکھنے کے لئے ڈائریکٹر ایف ایس او کے حوالے کر دی’ مجھے اس میٹنگ کے منٹس تیار کرنے کا نہیں کہا گیا تھا۔
تحریری بیان میں کہا گیا ہے کہ 8 اپریل 2022 کو کابینہ کا اجلاس ہوا جس میں کابینہ سیکرٹری، سیکرٹری قانون و انصاف اور میں سیکرٹری خارجہ کی حیثیت سے موجود تھے۔ میں نے بتایا کہ سائفر سیکیورٹی گائیڈ لائنز سائفر ٹیلی گرام کو صرف مجاز افراد کے ساتھ شیئر کرنے کی اجازت دیتا ہے یہ بھی بتایا کہ ماضی میں سائفر ٹیلی گرام کی ڈی کلاسیفکیشن کی کوئی مثال نہیں ہے میٹنگکے بعد فیصلہ کیا گیا کہ پارلیمنٹ کے ان کیمرہ اجلاس کو سائفر کی صداقت اور نمایاں خصوصیات کے بارے میں بریف کیا جائے۔

Leave A Reply

Exit mobile version