اتوار, ستمبر 8

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے حکومت کی درخواست منظور کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل کو جسٹس(ر)مظاہر نقوی کے خلاف کارروائی کی اجازت دے دی اور کہا ہے کہ جب کونسل کارروائی شروع کردے تو استعفی یا ریٹائرمنٹ پر کارروائی ختم نہیں ہوسکتی۔
دریں اثناء سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ یا مستعفی ججوں کے خلاف جوڈیشل کونسل میں کارروائی جاری رکھنے سے متعلق وفاقی حکومت کی اپیل پر فیصلہ محفوظ کرلیاتھا

حکومتی درخواست کی سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جوڈیشل کونسل کے 5 رکنی بینچ نے کی۔ کیس میں عدالتی معاونین کے دلائل مکمل ہو گئے۔
سماعت کے دوران جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کے درمیان اگر کوئی جج مستعفی ہو جائے تو کیا ہو گا؟
جوڈیشل اسسٹنٹ اکرم شیخ نے کہا کہ میرا موقف ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کا انحصار جج کے استعفے پر نہیں ہونا چاہیے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ جب بھارت میں کلکتہ ہائی کورٹ کی ایک خاتون جج انکوائری کے دوران ریٹائر ہوئیں تو ان کے خلاف کارروائی جاری تھی۔
جسٹس عرفان سعادت نے کہا کہ کسی جج کے خلاف ریفرنس آئے اور سپریم جوڈیشل کونسل نے نوٹس نہ دیا ہو تو کیا ختم ہو جائے گا؟
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سارا مسئلہ چیف جسٹس کی وجہ سے ہے بطور چیئرمین ریفرنس ٹیک اپ نہ کرنے سے بنا ہے ، ججز کے خلاف شکایات کو نمٹانا صرف چیئرمین کا کام نہیں کونسل کا کام ہے۔ پچھلے دنوں بھی چیف جسٹس نے کہا کہ100 سے زیادہ شکایت زیر التواء پڑی ہیں۔
اکرم شیخ نے کہا کہ جب کونسل کا اجلاس بلانا چیئرمین کا اختیار ہے تو ذمہ داری بھی چیئرمین پر ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہمارے سامنے دو اہم نکات ہیں، ایک نکتہ یہ ہے کہ جب کونسل شکایت کا نوٹس لے تو کیا یہ جج کے استعفی یا ریٹائرمنٹ سے ختم ہو جائے گی؟ ایک اور نکتہ یہ ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد جج کے خلاف نیا ریفرنس چلایا جا سکتا ہے؟
اکرم شیخ نے کہا کہ یہ ممکن نہیں کہ کوئی جج ریٹائر ہو جائے اور 10 سال بعد شکایت آئے اور اس کے خلاف کارروائی کی جائے۔
جسٹس عرفان سعادت نے کہا کہ عافیہ شہربانو کیس کسی جج کے استعفی یا ریٹائرمنٹ کا تنازعہ نہیں ہے۔ عافیہ شہر بانو کیس میں ایک جج کی ریٹائرمنٹ پر اس کے خلاف شکایت غیر موثر ہو جانے کا معاملہ اٹھایا گیا ہے’ اب مدعا یہ ہے کہ جب کونسل شکایت غیرموثر قرار دے چکی تو کیا کیا جائے؟
عدالتی معاون اکرم شیخ نے کہا کہ کیس کے فریقین اور میرٹس پر بات نہیں کریں گے، بعد ازاں عدالتی معاون اکرم شیخ کے دلائل مکمل ہو گئے۔
ایک اور عدالتی معاون خواجہ حارث نے کہا کہ جج کی ریٹائرمنٹ یا استعفی سے سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی بے معنی ہو جاتی ہے۔ جج کا استعفی دینا ضروری نہیں کیونکہ اس پر لگائے گئے الزامات درست ہیں۔ استعفی بھی دے سکتے ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا جج صاحبان استعفی کی وجوہات نہیں بتانی چاہیں؟
خواجہ حارث نے کہا کہ اگر توقانون کسی جج کو استعفی کی وجوہات بتانے کا پابند کرتا ہے تو ضرور دینا چاہیے۔ آرٹیکل 209 کا مقصد جج کو عہدے سے برطرف کرناہے۔ جب جج ہی عہدے پر نہیں تو کونسل کی کارروائی کیسے ہو سکتی ہے؟ اگر جج ریٹائر ہو چکا ہے یا استعفی دے چکا ہے تو کونسل صدر کو کیا سفارش کرے گی؟
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ایک بار کارروائی شروع ہو جائے تو کیا اسے فورا ختم کر دینا چاہیے؟
خواجہ حارث نے کہا کہ مثال کے طور پر اگر جج 11 تاریخ کو استعفی دیتا ہے اور کونسل 12 تاریخ کو کارروائی کرتی ہے تو جج موجود نہیں ہوتا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آرٹیکل 209 کی شق 5 میں کہا گیا ہے کہ کونسل کارروائی کر سکتی ہے چاہے جج عہدے پر ہو یا نہ ہو۔ جج کے استعفے یا ریٹائرمنٹ کی صورت میں صرف صدر کو سفارش والا حصہ ختم ہو جائے گا’ جج کے خلاف شکایت پر انکوائری تویہ ضروری ہو گی، نتیجہ کیا نکلتا ہے بعد میں دیکھا جائے گا، کیا جج نہیں چاہیں گے کہ وہ اپنے اوپر لگے الزامات سے بری ہو کر گھر چلے جائیں؟
خواجہ حارث نے کہا کہ تعزیرات پاکستان کے تحت سزا یافتہ شخص مر جائے تو اس کی سزا ختم ہو جاتی ہے۔
جسٹس جمال نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل جج کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کرے تو کون روک سکتا ہے؟
خواجہ حارث نے کہا کہ سپریم کورٹ کو کونسل کو کارروائی سے روکنے کا اختیار ہے۔ سپریم کورٹ نے افتخار محمد چوہدری اور شوکت عزیز صدیقی کے کیس میں کونسل کو کارروائی سے روک دیا تھا’ اگر کوئی جج جرم کرے تو عام قوانین کا نفاذ اس پر بھی ہوتا ہے۔

Leave A Reply

Exit mobile version