اسلام آباد :وفاقی کابینہ نے ہائیکورٹ ججز کے الزامات پر انکوائری کمیشن کی منظوری دے دی۔ذرائع کے مطابق جسٹس(ر) تصدق جیلانی انکوائری کمیشن کے سربراہ مقرر ہو گئے، جسٹس (ر) تصدق جیلانی پر مشتمل ایک رکنی کمیشن ہوگا،وزیر اعظم اور چیف جسٹس کی ملاقات میں انکوائری کمیشن پر اتفاق ہوا تھا۔وفاقی کابینہ کیذرائع کا کہنا ہے کہ کابینہ اجلاس میں اٹارنی جنرل کو خصوصی طور پر مدعو کیا گیا تھا اور ان سے اس معاملے پر قانونی رائے لی گئی۔
ذرائع نے بتایا کہ جسٹس (ر) تصدق جیلانی سے بھی باضابطہ طورپر رابطہ کرلیا گیا ہے اور قانونی ٹیم کو بھی یہ بتادیا گیا ہیکہ کابینہ نے سابق چیف جسٹس کے نام پر اتفاق کیا ہے اور کابینہ نے انہیں مکمل مینڈیٹ دیا ہے کہ تحقیقات میں انہیں جس ادارے کی مدد درکار ہو وہ لے سکتے ہیں۔
وفاقی کابینہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومتی قانونی ٹیم کو ہدایت کی گئی ہے کہ چیف جسٹس پاکستان کو بھی اس فیصلے سے آگاہ کیا جائے کہ ان سے اس حوالے سے جو طے پایا تھا کابینہ نے اس پر عملدرآمد کردیا ہے۔
ذرائع کے مطابق کابینہ نے انکوائری کمیشن کے ٹی او آرز بھی طے کردیئے ہیں جن کا باضابطہ اعلان پریس ریلیز میں کیا جائے گا۔
انکوائری کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر) تصدق جیلانی نے دنیا نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ معاملہ حساس نوعیت کا ہے اس میں صاف وشفاف تحقیقات کی جائیں گی، یہ ایک بڑا چیلنج ہے، قوم کی توقعات پر پورا اتریں گے۔واضح رہے چند روز قبل اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کی جانب سے چیف جسٹس آف پاکستان کو خط لکھا گیا تھا جس میں ججز نے عدالتی معاملات میں مداخلت اور تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
جسٹس (ر)تصدق حسین جیلانی 6 جولائی 1949 کو پیدا ہوئے، ایف سی کالج سے ایم اے سیاسیات کیا، اس کے بعد پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی اور 1974 میں جنوبی پنجاب کے شہر ملتان سے بطور وکیل اپنی پریکٹس کا آغاز کیا۔
1979 میں ضیا الحق کے دور میں پنجاب کے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل تعینات ہوئے، 1988 میں پنجاب کے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل تعینات کئے گئے، 1993 میں انہیں ترقی دے کر پنجاب کے ایڈووکیٹ جنرل کے عہدے پر تعینات کیا گیا۔
بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں 7 اگست 1994 کو لاہور ہائی کورٹ کے جج مقرر ہوئے اور تقریبا 10 سال کے بعد انہیں جولائی 2004 میں سپریم کورٹ کا جج تعینات کیا گیا۔
جسٹس (ر) تصدق جیلانی اس 7 رکنی بنچ کا حصہ تھے جس نے 3 نومبر 2007 کو ایمرجنسی کے موقع پر حکم جاری کیا تھا کہ اعلی عدلیہ کا کوئی بھی جج پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھائے اور بیوروکریسی فوجی آمر کا کوئی حکم نہ مانے۔
جسٹس ریٹائرڈ افتخار محمد چودھری کی ریٹائرمنٹ کے بعد 12 دسمبر 2013 کو چیف جسٹس پاکستان کی حیثیت سے حلف اٹھایا، بحیثیت چیف جسٹس پاکستان انہوں نے کم و بیش 7 ماہ خدمات سرانجام دیں اور 5 جولائی 2014 کو ریٹائرڈ ہوئے۔
جمعرات, نومبر 21
تازہ ترین
- احتجاج سے نمٹنے کیلئے پولیس نفری ڈی چوک اور مختلف سڑکوں پر کنٹینرز پہنچ گئے
- پی ٹی آئی احتجاج: حکومت کا اسلام آباد میں رینجرز تعینات کرنے کا فیصلہ
- بنوں میں فتنہ الخوارج کے حملے میں شہید ہونے والوں کی نماز جنازہ ادا
- ضمانت کے باوجود عمران خان کی رہائی کا امکان نہیں: عطا تارڑ
- آرمی چیف کا آئیڈیاز 2024کا دورہ، غیر ملکی دفاعی مینوفیکچررز کی شرکت کو سراہا
- ججز اور بیوروکریٹس کو پلاٹ الاٹمنٹ کیس: اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار
- پچھلی حکومت پوچھنے پر بھی توشہ خانہ کی تفصیلات نہیں بتاتی تھی: اسلام آباد ہائیکورٹ
- حکومت نے مذاکرات کے حوالے سے کوئی رابطہ نہیں کیا: بیرسٹر گوہر
- بشریٰ بی بی کی ضمانت میں توسیع، 23 دسمبر تک گرفتار نہ کرنے کا حکم
- حکومت پاکستان کا عمران خان کا مقدمہ فوجی عدالتوں میں چلانے کا کوئی ارادہ نہیں: برطانوی وزیر خارجہ
- امریکی ممبران کانگریس کا جوبائیڈن کو ایک اور خط لکھ دیا
- خارجی نور ولی محسود کا چھپ کرپاکستان میں داخل ہونے کا منصوبہ آشکار