اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا ہے نظر ثانی کا حق آئین نے دیا ہے، ججز کے آرام اور آسانی کونہیں بلکہ آئین کو ترجیح دینی چاہیے، اگر فوری طور پر نظر ثانی درخواست کو سماعت کیلیے مقرر نہ کیا گیا تو یہ ناانصافی ہوگی۔
سپریم کورٹ، پریکٹس اینڈ پروسیجز کمیٹی کا 17واں اجلاس چیف جسٹس کی سربراہی میں ہوا، جس کے نکات کا اعلامیہ جاری کردیا گیا ہے۔
اجلاس میں مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے پر نظرثانی درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کرنے کا معاملہ اٹھایا گیا۔ جس پر جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے کہا کہ نظرثانی صرف وہی 13 ججز سن سکتے ہیں جنہوں نے مرکزی کیس سنا۔
اجلاس کے نکات کے مطابق ججز نے کہا کہ کیس کا تفصیلی فیصلہ بھی نہیں جاری ہوا جبکہ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے اجلاس میں کہا بہت سے ججز گرمیوں کی چھٹیوں پر ہیں، ججز نے بیرون ملک بھی جانا ہے۔
اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا کہ نظرثانی کا حق آئین نے دیا ہے، ججز کے آرام اور آسانی کو نہیں آئین کو ترجیح دینی چاہیے، فوری طور پر نظرثانی کو سماعت کے لیے مقرر نہ کیا گیا تو یہ نا انصافی ہو گی.
ججز کمیٹی نے 1-2 کی اکثریت سے مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی درخواستیں تعطیلات کے بعد مقرر کرنے کی منظوری دی جبکہ چیف جسٹس نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا اور رائے دی کہ گرمیوں کی چھٹیاں منسوخ کرکے نظرثانی سننی چاہیے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے جاری نکات کے مطابق جسٹس منیب اختر نے رائے دی رولز میں عدالتی چھٹیوں کا اختیار موجود ہے اور نئے عدالتی سال کا آغاز اب ستمبر کے دوسرے ہفتے سے ہوگا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایک بار عدالتی چھٹیوں کا اعلان ہو جائے تو چھٹیاں منسوخ کرنے کی رولز میں کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے سیکشن سات کے تحت معاملہ جلدی کا ہو تو نظرثانی 15 دنوں میں سماعت کیلئے مقرر ہونی چاہیے، سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی ہے کہ 15 دنوں میں نظرثانی سماعت کیلئے مقرر نہ ہوئی تو کیس ہی غیر موثر ہو جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اگر سپریم کورٹ نے 15 دنوں میں نظرثانی سماعت کیلئے مقرر نہ کی تو اکثریتی فیصلے میں دیے گئے پندرہ دنوں کی حد گزر جائے گی اور کیس ہی غیر موثر ہو جائے گا، میرے دو ساتھی ججز نے نظرثانی نہ سننے کی دو وجوہات بتائیں، ساتھی ججز(جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر) نے رائے دی تفصیلی فیصلہ ابھی آنا ہے۔ تفصیلی فیصلہ تو ان ہی 8 ججز نے ہی تحریر کرنا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کے اقدام سے کسی کے حقوق سلب نہیں کیے جا سکتے، تفصیلی فیصلے کے انتظار تک نظرثانی سماعت کیلئے مقرر نہ کرنا آئین پاکستان اور قانون بے معنی ہو جائے گا۔
جمعرات, جولائی 31
تازہ ترین
- امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت پر 25 فیصد ٹیرف عائد کر دیا
- معرکہ حق میں شکست کھانے والا بھارت پراکسی جنگ میں شدت لا رہا ہے: فیلڈ مارشل
- پاکستان نے آپریشن سندور پر بھارتی رہنماؤں کے اشتعال انگیز دعوے مسترد کر دیئے
- آئی پی پیز کے ساتھ مذاکرات سے اربوں کا فائدہ ہوا: وزیر اعظم
- عبدالطیف چترالی نااہل قرار،الیکشن کمیشن نے محفوظ فیصلہ سنا دیا
- احتجاج کیلئے میرے بیٹے پاکستان نہیں آئیں گے: عمران خان
- چیلنج ہے سیاسی اور جمہوری طریقے سے حکومت گرا کر دکھاؤ: علی امین گنڈاپور
- دنیا معترف ہے پاکستان نے بھارت سے تاریخی جنگ جیتی: وزیر اعظم
- کرپٹو سے متعلق مفتاح اسماعیل کا بیانیہ زمینی حقائق کے برعکس ہے:عطا تارڑ
- غزہ میں غذائی قلت، ہمیں جنگ بندی تک پہنچنا ہوگا:ڈونلڈ ٹرمپ
- معیشت کی ڈیجیٹائزیشن ضروری، شفافیت کے فروغ میں مدد ملے گی: وزیراعظم
- پہلگام حملہ کرنے والے بھارتی، پاکستان کے ملوث ہونے کا کوئی ثبوت نہیں: پی چدمبرم